اپنے ہی وطن میں اپنے پیاروں کی طرف سے مسافروں کے خلاف زہریلا اور تہمت آمیز پروپیگنڈہ
تحریر: قاسم سواتی: برطانیہ
مسافر اپنے وطن سے دور پردیس میں رہتے ہوئے اپنے پیاروں کی خاطر بہت سی قربانیاں دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے اخراجات پورے کرنے اور اپنے پیاروں کو زیادہ سے زیادہ رقم بھیجنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے انہیں بیرونی ممالک میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے پاس سونے کا وقت نہیں ہوتا ۔ ان میں سے کچھ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہیں باقاعدگی سے ڈاکٹروں اور علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن انہیں ایسا کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں ملتا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنے کھانے کے لیے کافی وقت نہیں پا سکتے۔ ان میں سے کچھ کے پاس سماجی زندگی کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا، کیونکہ انھیں زیادہ کام کرنے اور اپنے پیاروں کو پیسہ بھیجنے کے لیے کچھ رقم بچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس طرح یہ مسافر اپنے بھائیوں، بہنوں، بھتیجوں، والدین اور کچھ دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں کی خاطر اپنا آرام کا وقت، صحت، سماجی زندگی اپنے بچوں کا مستقبل اور زندگی کی ہر چیز قربان کردیتے ہیں۔ وہ اپنے ان پیاروں کے فائدے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آرام، صحت، ترقی اور مستقبل کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ اپنے ایسے پیاروں کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور انہیں زیادہ سے زیادہ خوش رکھنا چاہتے ہیں۔
نتیجتاً یہ مسافر اپنی صحت، دولت، خوشحالی، خاندانی زندگی، اپنے بچوں کی تربیت اور مستقبل سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مسافر اپنے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کھو دیتے ہیں کیونکہ بیرون ملک رہتے ہیں اور اپنے ملک میں ہر کسی سے رابطہ نہیں رکھ پاتے۔ اس طرح جب وہ طویل عرصے کے بعد اپنے وطن واپس آتے ہیں تو وہ اپنےآپکو اپنی جائے پیدائش میں ہی اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ملک کی کسی بھی عدالت میں کسی قانونی مقدمے کا سامنا کرنا پڑے ، تو وہ عدالت میں مقدمہ جیتنے کے قابل نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے مخالفین خاص طور پر ان کے اپنے مخالف رشتہ دار اور کچھ خود غرض دوست ارباب اختیار، وکلا اور دیگر بااثر لوگوں کو عدالت، پولیس اسٹیشن اور اس طرح کے دیگر دفاتر میں رشوت دے کر یا ان کی چاپلوسی کر کے ان مسافروں کو پٹواری، تحصیلدار، پولیس، جرگہ ممبران، وکلاء اور اس طرح کے دیگر حکام اور فیصلہ سازوں کے دفاتر میں کسی بھی مقدمے میں آسانی سے شکست دے سکتا ہے۔اس طرح بیرون ممالک میں ان مسافروں کی اپنی کمائی اور اپنے پیاروں کو بھیجی گئی رقم ہی ان مسافروں کے خلاف مقدمات میں استعمال ہوتی ہے۔
دوسری طرف، جب ان کے بھائی، بہن، والدین اور دیگر رشتہ دار و احباب ان کے دشمن بن جاتے ہیں، تو وہ زندگی میں کسی بھی غلط کام واقع ہونے پر ان مسافروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ معاشرے میں ان مسافروں کے خلاف خطرناک اور زہریلا پروپیگنڈہ پھیلانے کی کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے باز نہں آتے، اس طرح دوسرے لوگوں کی نظر میں ان کو بدنام اور بے عزت کرتے ہیں۔
اس طرح یہ لوگ جگہ جگہ ان مسافروں کے خلاف فرضی کہانیاں گھڑتے ہیں اور ان کی کردار کشی کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کو ان مسافروں کے خلاف اس طرح قائل کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان جھوٹی کہانیوں پر یقین کرنے لگتے ہیں، اور ان متاثرین مسافروں سے نفرت شروع کر کے بلاوجہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یوں یہ ظالم رشتہ دار اور بعض اوقات کچھ خودغرض دوست معاشرے میں اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے معاشرے کو اِن مسافروں کے خلاف اکساتے ہیں۔ اور اِس طرح اِن مظلوم مسافروں کی زندگی جہنم بنادیتی ھیں
قاسم سواتی ایک آزاد صحافی، مصنف اور انسانی حقوق کے کارکن ہیں، جو برطانیہ میں مقیم ہیں، اور ان سے
qasimswati2003@yahoo.co.uk
پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ما شاء الله